حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، تحریکِ بیداری امت مصطفیٰ کے سربراہ علامہ سید جواد نقوی نے اپنے حالیہ خطاب میں کہا ہے کہ غزہ کی جنگ میں دو اہم پہلو نمایاں ہیں: ایک، اسرائیل، امریکہ، برطانیہ اور یورپی یونین کی جانب سے ہونے والی جنایت اور دوسری، مسلمان ممالک کی خیانت، دن دہاڑے اس قدر بڑا ظلم سب کی نظروں کے سامنے ہو رہا ہے اور اسلامی ممالک بے بس و لاچار بنے بیٹھے ہیں۔ ترکی، مصر، متحدہ عرب امارات، اردن، بحرین، مراکش اور دیگر ممالک کے اسرائیل کے ساتھ سفارتی اور تجارتی تعلقات پر کوئی اثر نہیں پڑا، خاص طور پر آل سعود جیسے خیانت کار، جو ابتداء سے مسلمانوں کی طاقت کو تقسیم کرنے اور اقصیٰ اور فلسطین کے معاملے میں خیانت کی ایک طویل تاریخ رکھتے ہیں، مکمل خاموش ہیں۔ ان کی طرف سے نہ کوئی سفارتی کوشش کی جا رہی ہے، نہ مذاکرات، نہ دباؤ، نہ احتجاج، اور نہ ہی اقوام متحدہ میں کوئی مؤثر اقدام اٹھایا جا رہا ہے۔ یہ جنگی جرائم کا آنکھوں سے مشاہدہ کرنے کے باوجود انتہائی بے شرمی سے اسرائیل کو دو ریاستی حل کی پیشکش کر رہے ہیں، جبکہ اسرائیلی وزیراعظم کھل کر اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں بنا کسی تردید کے سعودی عرب کے ساتھ جلد تعلقات نارملائز کرنے کا عندیہ دے رہا ہے۔
علامہ جواد نقوی نے مزید کہا کہ عرب ممالک پر مشتمل صیہونی گروہ، اسلامی مزاحمت کے امریکہ و اسرائیل سے سے بھی بڑے دشمن ہیں جو مزاحمت کی ناکامی تک جنگ کے خاتمے میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتے، یہی انسانی المیے میں امریکہ و اسرائیل کے سرمایہ کار ہیں، چونکہ ان کے منصوبے اور مفادات ہی خطے میں مزاحمتی تحریکوں کے خاتمے سے وابستہ ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ اسرائیلی بارڈر سے محض 40 میل دور بن سلمان کے افسانوی شہر نیوم کی تعمیر، اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کی حسرت اور وژن 2030 کے تحت سرزمین حجاز کی حرمت پامال کرنے کے منصوبے اسی صورت میں کامیاب ہو سکتے ہیں جب حماس اور حزب اللہ ناکام ہوں، چونکہ اگر حماس اور حزب اللہ کو اس جنگ میں کامیابی ملتی ہے تو یہ کھوکھلی حکومتیں ختم ہو جائیں گی اور ان کے عوام خود انہیں عبرت کا نشان بنائیں گے۔
علامہ جواد نقوی نے مزید کہا کہ پاکستان میں صیہونیت کی بڑھتی ہوئی مضبوطی بھی عرب ممالک کے اثر و رسوخ کا نتیجہ ہے۔ فلسطین کی حمایت کا کمزور ہونا، فلسطین کا نام لینے والوں کو ہراساں کرنا اور احتجاج کو جرم سمجھا جانا اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ پاکستان میں یہ تمام اقدامات صیہونی منصوبوں کے نفاذ کا حصہ ہیں، جس کے نتیجے میں، پاکستان تاریخی طور پر فلسطین کے ساتھ کھڑے ہونے کے باوجود آج اس سے بیگانہ ہوتا جا رہا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ طاقتور صیہونی لابی پاکستان کو اقتصادی و سیاسی مشکلات میں گھیر کر اپنے مقاصد کو آگے بڑھا رہی ہے۔